کارنی کی لبرل پارٹی نے کینیڈا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جو ٹرمپ کے اثرات سے متاثر تھے

مقامی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، سی بی سی جیسی خبروں کے ادارے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ لبرل پارٹی کینیڈا کی اگلی حکومت بنائے گی، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر سکیں گے یا نہیں۔

کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پویلئور وزیرِاعظم بننے میں ناکام رہے، لیکن ان کی پارٹی کو پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کی توقع ہے۔

ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں اور کینیڈا کو ضم کرنے کی دھمکیوں نے جو خاص طور پر الیکشن کے دن سوشل میڈیا پر دی گئی تھیں پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی، جس سے یو ایس-کینیڈا تعلقات الیکشن مہم کا ایک اہم موضوع بن گئے۔

کارنی، جو منتخب دفتر میں نئے تھے اور صرف ایک ماہ پہلے جسٹن ٹروڈو سے وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھال چکے تھے، نے اپنی مہم کو ٹرمپ کے خلاف ایک مضبوط موقف پر مرکوز کیا۔

اس سے پہلے، کارنی برطانیہ اور کینیڈا کے مرکزی بینک کے گورنر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ووٹرز کو یہ یقین دلایا کہ عالمی مالیات میں ان کا وسیع تجربہ کینیڈا کو تجارتی تنازعہ سے نمٹنے کے لیے بہترین طور پر تیار کرتا ہے۔

کارنی نے عوامی خدمت میں شامل ہونے سے پہلے سرمایہ کاری بینکنگ میں کامیاب کیریئر بنایا تھا۔ وزیرِاعظم بننے کے بعد، انہوں نے کینیڈا کے عالمی تجارتی تعلقات کو متنوع بنانے کا عہد کیا تاکہ ملک کی امریکہ پر انحصار کو کم کیا جا سکے۔

اپنی مہم کے دوران، کارنی نے ٹرمپ کی طرف سے درپیش خطرے پر زور دیا، اور اس صورتحال پر سخت بیانات دیے۔

انہوں نے اپنی مہم میں کہا، "ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں توڑنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ ہمیں قابو کر سکے۔ وہ ہمارے وسائل، ہمارے پانی، ہماری زمین، اور ہمارے ملک کو چاہتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔"

جب سی بی سی نے نتائج کا اعلان کیا، تو اوٹاوا میں لبرل حامی خوشی سے جھوم اُٹھے۔

ڈوروتھی گوبو، جو 72 سال کی ہیں اور لبرل حامی ہیں، نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "میں خوش ہوں کیونکہ اب ہمارے پاس ایسا شخص ہے جو مسٹر ٹرمپ سے برابری کے سطح پر بات کر سکتا ہے۔ دونوں کاروباری لوگ ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔"

ٹروڈو کے استعفیٰ سے پہلے، ٹرمپ نے ان کا مذاق اُڑاتے ہوئے انہیں گورنر کہا تھا اور تجویز دی تھی کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بن جانا چاہیے۔ گوبو نے کہا کہ اب یہ مذاق ختم ہو جائے گا۔

"اب یہ 'گورنر' نہیں رہا؛ یہ کینیڈا کا وزیرِاعظم ہے، اور ہم 51ویں ریاست نہیں ہیں ہم کینیڈا ہیں!" انہوں نے کہا۔

لبرل ایم پی اسٹیون گلبو، جو کارنی کی کابینہ کا حصہ ہیں، نے انتخابی نتائج کو ٹرمپ کے اقدامات سے جوڑا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے کینیڈا کی معیشت، خودمختاری، اور شناخت پر مسلسل حملوں نے کینیڈا کے عوام کو کارنی کی حمایت میں کیا۔

"کینیڈا کے عوام ٹرمپ کے حملوں سے متحرک ہو گئے تھے، اور انہوں نے وزیرِاعظم کارنی میں ایک ایسا رہنما دیکھا جس کے پاس عالمی تجربہ تھا جو ہمارے مفادات کا تحفظ کر سکتا تھا۔" انہوں نے کہا۔

ٹروڈو کا استعفیٰ

سابق وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو کا استعفیٰ لبرل پارٹی کی غیر متوقع کامیابی میں اہم کردار ادا کیا، جسے کینیڈا کی تاریخ میں سب سے بڑی سیاسی واپسیوں میں سے ایک سمجھا جا رہا ہے۔

کہ 6 جنوری کو، جب ٹروڈو نے اپنے استعفے کا اعلان کیا، کنزرویٹو پارٹی اکثر قومی سروے میں لبرل پارٹی سے 20 پوائنٹس سے زائد کی برتری رکھ رہی تھی۔

عوام میں ٹروڈو کے دس سالہ دورِ اقتدار کے بعد بڑھتی ہوئی زندگی کی لاگت کی وجہ سے مایوسی تھی۔

تاہم، مارک کارنی کا لبرل پارٹی کے نئے رہنما کے طور پر شامل ہونا، اور کینیڈا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اثرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش، نے سیاسی منظرنامے کو یکسر بدل دیا۔

سالہ کارنی نے واضح طور پر اپنی مہم کو ٹروڈو کے ورثے سے الگ کرنے کی کوشش کی۔.پورے انتخابی دور میں، انہوں نے اقتصادی ترقی پر زور دیا اور ٹروڈو60  کے زیرِ تنقید کاربن ٹیکس کو منسوخ کرنے کا وعدہ کیا,جس سے کینیڈا کے بہت سے لوگ ناراض تھے۔

دوسری طرف، کنزرویٹو رہنما پیئر پویلئور، جو 45 سال کے ہیں اور بیس سال سے پارلیمنٹ میں ہیں، کو سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ انہوں نے ٹرمپ کی تنقید کی تھی، لیکن ان کا نقطہ نظر بہت نرم سمجھا گیا۔ پویلئور نے داخلی مسائل پر زور دینے کی کوشش کی جو ٹروڈو کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنے، اور یہ کہا کہ کارنی صرف لبرل پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ تاہم، یہ پیغام کافی ووٹرز تک نہیں پہنچ سکا۔

اوٹاوا میں ایک کنزرویٹو جلسے میں، حامی جیسن پچ نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا اور اے ایف پی کو بتایا، "میں آج رات ایک بڑی جیت کی توقع کر رہا تھا۔"

کینیڈا کی 41 ملین کی آبادی میں سے تقریباً 29 ملین لوگ اس بڑے جی7 ملک میں ووٹ دینے کے اہل تھے، جو چھ ٹائم زونز پر پھیلا ہوا ہے۔ ریکارڈ 7.3 ملین کینیڈینوں نے پیشگی ووٹنگ کی۔

رپورٹنگ کے وقت تک، کینیڈا کی پارلیمنٹ کے 343 سیٹوں کے نتائج ابھی تک حتمی نہیں ہوئے تھے، جہاں اکثریتی حکومت بنانے کے لیے 172 سیٹیں درکار ہیں۔ حالانکہ لبرلز نے 2015 میں اکثریت حاصل کی تھی، وہ 2019 سے اقلیتی حکومت کے طور پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

X