مقبوضہ کشمیر کے علاقے پاہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں دو درجن کے قریب سیاحوں کی ہلاکت نے بھارت کی مودی حکومت کو اپنی عسکری پالیسیوں کو مزید جارحانہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بھارت میں قوم پرستی کی لہر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور عقلی آوازیں جنگ کے جنون میں دبتی جا رہی ہیں۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھی فائرنگ کے تبادلے میں شدت آ چکی ہے، جہاں بھارتی اور پاکستانی افواج کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
نئی دہلی حکومت اس حملے کا الزام پاکستان پر لگا رہی ہے، لیکن ابھی تک اس الزام کے حق میں کوئی واضح شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ بھارت کا اصل غصہ اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ واقعہ اُس بیانیے کو نقصان پہنچاتا ہے جس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں حالات پرامن ہیں اور وہاں کی عوام بھارتی اقدامات کو قبول کر چکی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ بھارتی انٹیلیجنس کی ناکامی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔
بعض بھارتی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اتنے محفوظ علاقے میں ایسا حملہ مقامی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ تاہم، طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کو دبایا نہیں جا سکا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق بھارت نے اب تک کسی بھی گروہ کو اس حملے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا اور نہ ہی پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے۔
اگرچہ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں، مودی حکومت نے فوری طور پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت نے عالمی میڈیا کو ماضی کی مبینہ عسکری معاونت کے تناظر میں پاکستان پر الزامات لگائے ہیں، اور حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی پاکستان کے خلاف کئی پابندیاں بھی عائد کر دیں۔
بہار میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے حملہ آوروں اور اُن کے مبینہ حامیوں کو "ناقابلِ تصور سزا" دینے کی دھمکی دی۔ مودی حکومت کا یہ جارحانہ رویہ درحقیقت اپنی داخلی اور کشمیر میں ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش محسوس ہوتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر مختلف مقامات کو عسکری کارروائی کا نشانہ بنا سکتا ہے، حالانکہ پاکستان کے خلاف الزامات کے لیے کوئی مضبوط جواز موجود نہیں۔
اگر بھارت نے محدود عسکری کارروائی کا فیصلہ کیا تو یہ صورتحال ایک وسیع اور خطرناک جنگ میں بدل سکتی ہے۔ یہ سوچ کہ جنگ کو ایٹمی حد سے نیچے رکھا جا سکتا ہے، ایک خطرناک خام خیالی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے بھی کئی بار جنگ کے خطرات منڈلا چکے ہیں، لیکن اس بار صورتحال زیادہ سنگین ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی روابط مکمل طور پر معطل ہو چکے ہیں۔
بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا بھی ایک خطرناک قدم ہے۔ یہ معاہدہ تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا، اور اب اس کا خاتمہ پاکستان کے نزدیک جنگ کا اعلان سمجھا جا رہا ہے۔ اسلام آباد نے اس پر سخت ردعمل دینے کا اعلان کیا ہے۔
مودی حکومت شاید 2019 کے واقعے کو بھول چکی ہے جب بھارت کی فضائی کارروائی کے جواب میں پاکستان نے ایک بھارتی لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا۔ اُس وقت امریکی سفارتی مداخلت نے حالات کو بگڑنے سے بچایا تھا۔ لیکن اب بھارت کے رہنما بظاہر جنگی حالات کی سنگینی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ سوچ کہ جنگ فوری فتح لا سکتی ہے، ایک سنگین غلطی ہے۔ جنگ شروع کرنا آسان لیکن ختم کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، اور کوئی بھی ملک اس کا انجام طے نہیں کر سکتا۔
تاریخ میں کئی طاقتور ممالک کو جنگوں میں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک بین الاقوامی سفارتکار کے مطابق، "جتنا طویل تنازعہ چلتا ہے، اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔"
یہ سوچ کہ جنگ سے فوری کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، اکثر طویل اور نقصان دہ جنگوں کی بنیاد بنتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان برسوں سے براہِ راست اور پس پردہ کشیدگی جاری ہے، جہاں دونوں ایک دوسرے پر پراکسی وارز کا الزام لگاتے ہیں۔ اس ماحول میں جنگی نعروں اور دھمکیوں سے مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ بات چیت کے دروازے مزید بند ہو جاتے ہیں۔
پاہلگام کا دہشت گرد حملہ قابل مذمت ہے، لیکن اسے جنگ کی بنیاد بنانا مناسب نہیں۔ پاکستان میں بھی کچھ حلقے جوابی کارروائی یا ایٹمی صلاحیتوں کی شیخی بگھار رہے ہیں، انہیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جذباتی ردعمل کی بجائے تحمل اور حکمت سے کام لینا ضروری ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو خطرہ نہ ہو۔
جنگ کے نتائج ہمیشہ غیر متوقع اور خطرناک ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹا تنازعہ بڑے جنگی محاذ میں بدل سکتا ہے، جو نہ صرف مہنگا بلکہ طویل بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ پاک-بھارت سفارتی رابطے ختم ہو چکے ہیں، لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اب بھی کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کہ 2002 میں بھی جب جنگ کا خطرہ انتہائی قریب تھا،اُس وقت عقل و تدبر سے کام لیتے ہوئے بڑے تصادم کو ٹالا گیا اور امن کی راہ ہموار ہوئی۔ بدقسمتی سے آج مودی حکومت کی انتہا پسند پالیسیوں نے مذاکرات کے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔
بھارت کو یہ زعم ہے کہ وہ عسکری برتری کے ذریعے پاکستان کو کمزور کر سکتا ہے، لیکن اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا انجام دونوں ممالک کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے، اور اس وقت جب دنیا کی توجہ دیگر عالمی مسائل پر مرکوز ہے، ایسے اقدامات خطے کو بڑی تباہی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔