ایڈم اسمتھ کی کتاب کا ایک اہم مقصد ایک پرانے معاشی نظریے، مرکنٹیلزم، کو چیلنج کرنا تھا۔ یہ نظریہ 1500 کی دہائی سے یورپ میں مقبول تھا، جس کے مطابق کسی بھی ملک کی دولت سونے، چاندی اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر پر منحصر ہوتی ہے۔ یعنی، جتنا زیادہ قیمتی دھاتوں کا ذخیرہ، اتنی ہی زیادہ طاقت۔
لیکن ایڈم اسمتھ اس بات سے متفق نہیں تھے۔ اُنہوں نے اس نظریے پر تنقید کی جس میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ دنیا کے وسائل محدود ہیں اور اقوام آپس میں ان کے لیے لڑتی ہیں۔ اس کے برعکس، اسمتھ نے آزاد تجارت کی حمایت کی اور کہا کہ کسی بھی ملک کی اصل دولت اُس کی پیداواری صلاحیت اور محنت کش طبقے میں ہوتی ہے۔
یہ نکتہ آج کے پاکستان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پالیسی سازوں کی توجہ ایک بار پھر قدرتی وسائل اور معدنی ذخائر پر مرکوز ہوئی ہے تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری لائی جا سکے اور ڈالر کمائے جا سکیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں؛ 1956 میں بھی حکومتی حکام معدنی دولت کے استعمال کی بات کر رہے تھے۔
پاکستان نے برسوں سے دنیا سے کئی ایسے وعدے کیے ہیں: خود کو وسطی ایشیا کا دروازہ، علاقائی تجارتی مرکز، یا سی پیک گیم چینجر قرار دیا۔ تاہم، ان دعووں کے باوجود — اور کچھ معدنیات نکالنے کے باوجود — ملک کی معاشی ترقی غیر مستحکم ہے، اور انسانی ترقی کے اشاریے بدستور جدوجہد کر رہے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ صرف معدنیات ہونا کافی نہیں۔ درحقیقت، جیسے سوئی اور وزیرستان میں دیکھا گیا، معدنیات نکالنے سے ترقی کے بجائے اکثر مسائل پیدا ہوتے ہیں، جیسے عدم مساوات، بدامنی اور تنازعات۔
تو پھر ایک ملک کی اصل دولت کیا ہے؟ ایڈم اسمتھ کے مطابق، وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیداواری صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی جتنا زیادہ تربیت یافتہ، صحت مند اور ہنر مند افرادی قوت ہو، اتنا ہی ملک خوشحال ہوتا ہے۔ اسمتھ کا ماننا تھا کہ سرمایہ صرف اس مقصد کا ذریعہ ہے، نہ کہ خود مقصد۔
صدیوں پہلے مسلمان مفکر ابن خلدون بھی اسی نظریے کے قائل تھے کہ ہنر، مہارت اور تقسیمِ محنت کسی قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔
بعد ازاں نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معیشت پال رومر نے بھی 1980 اور 1990 کی دہائی میں اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ طویل المدتی معاشی ترقی کا اصل ذریعہ انسانی سرمایہ یعنی لوگوں کی مہارت، علم اور پیداواری صلاحیت ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا، پاکستان کو "گیم چینجر" جیسے نعروں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنی اصل طاقت یعنی عوام پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ سچی تبدیلی تعلیم یافتہ، صحت مند اور ہنر مند افرادی قوت سے آتی ہے۔ معدنیات اکیلے کچھ نہیں کر سکتیں۔
یقیناً، معدنی وسائل سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مضبوط ادارے، جدید ٹیکنالوجی، انسانی سرمایہ، مؤثر انتظام، جائیداد کے حقوق، اور انصاف پر مبنی نظام کی ضرورت ہوتی ہے — جو بدقسمتی سے پاکستان میں اب بھی کمزور ہیں۔
اگر ہم نے انسانی سرمایہ اور معاشی منصوبہ بندی کو بہتر نہ بنایا تو معدنی دولت کی باتیں صرف باتیں ہی رہ جائیں گی۔ زیادہ سے زیادہ، یہ وقتی طور پر درآمدی بل پورا کرنے کے لیے زرِ مبادلہ دے سکتی ہیں — بشرطیکہ قرضے مزید نہ بڑھیں۔
تاریخ پر نظر ڈالیں۔ 16ویں صدی میں ہسپانوی مہم جوؤں نے بولیویا کی پوتوسی کانوں سے بڑی مقدار میں چاندی نکالی۔ کچھ وقت کے لیے سپین امیر ہوا، جنگیں لڑیں اور نوآبادیات قائم کیں۔ لیکن پھر مہنگائی بڑھی، مقامی لوگ بدترین حالات میں کام کرنے پر مجبور ہوئے، اور ماحولیاتی تباہی بھی ہوئی۔
نتیجہ بالکل واضح ہے: صرف معدنیات قومیں نہیں بناتیں۔ اگر تربیت یافتہ افراد اور مضبوط نظام نہ ہوں تو معدنی دولت ایک نعمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ معدنیات کو معجزاتی حل سمجھنے کا نظریہ ترک کر دیا جائے۔ اصل ترقی عوام پر سرمایہ کاری سے آتی ہے — یہی حقیقی گیم چینجر ہے۔