بارہویں پارے کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پراس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ روئے زمین پر چلنے والا کوئی جانور ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو، اور جس کے متعلق اسے یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کہاں رہتا ہے اورکہاں سونپا جاتا ہے، اسی نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ آگے دو رکوع تک اسی طرح کے مضامین ہیں۔
اس کے بعد انبیاء علیہم السلام کی قوموں کا ذکر شروع ہوا، پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہیں خبردار کرنے والا ہوں، تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، قوم کے لوگ کہنے لگے کہ تم تو ہمیں ہمارے ہی جیسے انسان لگتے ہو۔ تمہاری اتباع قوم کے گرے پڑے لوگ کررہے ہیں اور ہم تو تمہارے اندر کوئی فضیلت اور برتری نہیں دیکھتے، حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو لاکھ سمجھایا، یہ بھی کہا کہ میں تم سے کوئی سوال نہیں کررہا ہوں، نہ کچھ مانگ رہا ہوں۔ مگرقوم کی سرکشی بڑھتی رہی۔ مجبور ہوکر انہوں نے عذاب الٰہی سے بھی ڈرایا اس پر یہ لوگ کہنے لگے کہ بس اب بہت جھگڑ چکے، جس عذاب کا تم ذکر کرتے ہو وہ لاکر دکھلاؤ۔ حکم ہوا کہ اے نوح یہ قوم ایمان لانے والی نہیں ہے، اب تم کشتی تیار کرو۔ چنانچہ حضرت نوح ؑ تعمیل حکم میں مصروف ہوگئے۔ قوم کے سردار جب ادھر سے گزرتے تو کشتی بنتے ہوئے دیکھ کر خوب خوب ہنستے۔ بالآخر وقت موعود آپہنچا، تنور ابل پڑا ہم نے کہا کہ ہر قسم کے جانور کے جوڑے کشتی میں رکھ لو، اور اپنے گھر والوں کو بھی سوار کرلو۔ حضرت نوح ؑ نے بیٹے کو پکارا، وہ الگ تھلگ رہا اور ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔
اب قوم عاد کا قصہ شروع ہوا۔ اس قوم میں حضرت ہود علیہ السلام پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے، انہوں نے بھی وہی پیغام دیا کہ اے میری قوم کے لوگو اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ ان سے یہ بھی کہا کہ اے میری قوم کے لوگو اپنے رب سے مغفرت چاہ لو، پھر اس کی طرف متوجہ رہو، وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری اس طاقت میں مزید قوت بڑھا دے گا، مگر قوم عاد نے سرکشی کا وطیرہ اپنائے رکھا اور صاف صاف کہہ دیا کہ اے ہود آپ ہمارے سامنے کوئی دلیل تو لے کر آئے نہیں، محض آپ کے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ اس قوم کو بھی اس کی سرکشی کی سزا دی گئی اور ان پر ایک ایسا عذاب آیا جس سے حضرت ہودؑ اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کے علاوہ سب تباہ و برباد ہوگئے ۔
قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا گیا، انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ اے لوگو اللہ کی عبادت کرو، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تم کو بسایا ہے، تم اس سے معافی مانگو، پھر اس کی طرف متوجہ ہو۔ قوم نے کہا اے صالح تم ہمیں ان چیزوں کی پرستش سے روکنا چاہتے ہو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔ حضرت صالحؑنے قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا، اللہ کے عذاب سے ڈرایا، لالچ دیا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے، ان کے سامنے ایک اونٹنی کو بطور دلیل وحجت بھی پیش کیا کہ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشانی ہے، اسے اللہ کی زمین میں چرنے کیلئے آزاد چھوڑ دو۔ اس سے ذرا بھی تعرض مت کرنا ورنہ تم پر فوراً اللہ کا عذاب آجائے گا، مگر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا، اس کی پاداش میں ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا گیا اور ایک چیخ سن کر وہ اپنے گھروں کے اندر بے حس و حرکت پڑے رہ گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کچھ فرشتے اولاد کی خوش خبری لے کر پہنچے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ قوم لوط کی طرف ان کو تباہ کرنے جارہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نرم دل انسان تھے، انہوں نے حضرت لوطؑ کی قوم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے جھگڑنا شروع کردیا (کہ اس کو عذاب نہ دیں کچھ اور مہلت دیدیں ) مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیمؑ یہ بات چھوڑ دو، تمہارے رب کا حکم آچکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو اَب ہٹایا نہیں جاسکتا۔ بہر حال فرشتے حضرت لوطؑ کی خدمت میں حاضرہوئے، حضرت لوطؑ کو علم نہیں تھا کہ وہ فرشتے ہیں، ان کو خیال ہوا کہ یہ نو عمر مہمان لڑکے ہیں اور میری قوم غیر فطری فعل میں مبتلا ہے، یقیناً ان کے ساتھ برا سلوک کرے گی۔ یہ سوچ کر وہ پریشان ہوئے، قوم کے لوگ بھی آپہنچے، حضرت لوطؑ نے بڑی منت سماجت کی مگر وہ یہی کہتے رہے کہ مہمانوں کو ہمارے سپرد کرو۔ حضرت لوط ؑ پریشان ہوکر کہنے لگے کہ کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی کہ تم پر کچھ زور چلتا یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا، تب فرشتوں نے ان سے کہا کہ اے لوط (علیہ السلام) ہم تو آپ کے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ آپؑ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، آپ رات ہی میں اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جائیں اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ پھر اللہ نے اس بستی کو اُلٹ دیا اور اس پر تابڑ توڑ پتھر برسائے جن میں سے ہر پتھر اللہ کی طرف سے نشان زدہ تھا۔
مدین کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا انہوں نے بھی توحید کا پیغام دیا اور یہ بھی نصیحت کی کہ ناپ تول میں کمی مت کیا کرو، میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ تم پر ایک ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا۔ قوم نے کہا کہ اے شعیب آپ کی بہت سی باتیں تو ہمارے سمجھ میں ہی نہیں آتیں، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک کمزور آدمی ہیں۔ اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا، وہ اپنی بستیوں میں اوندھے منہ پڑے کے پڑے رہ گئے جیسے وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہیں تھے۔
اس کے بعد حضرت موسیٰؑ کا قصہ ہے، یہ قصہ گزشتہ پاروں میں بھی مختلف طریقوں سے آچکا ہے۔ اس سورہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے بیان کرنے کی حکمت بھی ارشاد فرمائی کہ پیغمبروں کے یہ قصے جو ہم آپ کو سناتے ہیں ان سے ہم آپ کے دل کو مضبوط کرتے ہیں، ان سے آپ کو حقیقت کا علم اور اہل ایمان کو نصیحت اور بیداری نصیب ہوتی ہے۔
سورۂ ہود ختم ہوئی، سورہ یوسف کا آغاز ہوا۔ سورہ کے آغاز میں فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں، ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ لو، اور ہم اس قرآن کے ذریعے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد قصہ شروع ہوتا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ایک خواب دیکھا اور اپنے والد حضرت یعقوبؑ کو بتایا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاندہے یہ سب مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بتانا ورنہ وہ تمہارے خلاف سازش کریں گے۔ ان بھائیوں نے آپس میں کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی دونوں ہمارے والد کے زیادہ چہیتے ہیں حالاں کہ ہم پورا گروہ ہیں، حقیقی بات یہ ہے کہ ہمارے والد بہک گئے ہیں، چلو یوسف کو قتل کردیں یا اس کو کسی (دور افتادہ) جگہ پھینک آئیں اس طرح والد کی پوری توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی، اس کے بعد پھر نیک بن جانا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو، بلکہ اس کو کسی اندھے کنویں میں ڈال دو، شاید کوئی قافلہ اسے اٹھالے۔ اس پر اتفاق ہونے کے بعد یہ سب والد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت یوسفؑ کو اپنےساتھ بھیجنے کیلئے اصرار کیا۔ حضرت یعقوبؑ نے خدشہ ظاہر کیا کہ تمہاری غفلت سے یوسف ؑ کو نقصان نہ پہنچے۔ بھائیوں نے یقین دہانی کرائی اور یوسف کو لے گئے اور اس پر متفق ہوگئے کہ اس کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں۔
پھر وہ لوگ یوسفؑ کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر والد کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا کہ تم نے اپنے دل سے ایک بات گھڑ لی ہے سو میں صبر کروں گا۔ ادھر ایک قافلہ آ نکلا، اس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لئے بھیجا، سقے نے کنویں میں ڈول ڈالا تو پکار اٹھا کہ مبارک ہو یہاں تو ایک غلام ہے، انہوں نے مال کی طرح ان کو چھپا لیا اور چند درہموں میں ان کو فروخت کرڈالا۔ جس شخص نے مصر میں ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح رکھنا، ممکن ہے یہ ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنالیں، جب وہ جوانی کو پہنچے تو اللہ نے ان کو حکمت اور علم عطا کیا، جس عورت کے گھر میں یوسف تھے وہ ان کو ورغلانے لگی۔ یوسف ؑ نے اللہ کی پناہ چاہی۔ پھر آپ ؑ کو جیل خانے میں ڈلوادیا گیا، جیل خانے میں یوسف کے ساتھ دو غلام اور بھی داخل ہوئے، انہوں نے خواب دیکھے اور حضرت یوسفؑ سے ان کی تعبیر پوچھی اور وہ سچ نکلی۔ ان میں سے ایک سے حضرت یوسف ؑ نے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا مگر وہ بھول گیا، اس کے بعد شاہ مصر نے خواب دیکھا اور درباریوں سے تعبیر معلوم کی، وہ غلام وہاں موجود تھا، اس نے جیل خانے جاکر یوسف سے تعبیر معلوم کی انہوں نے بتلادی، شاہ مصر کو معلوم ہوا کہ یہ تعبیر فلاں شخص نے بتلائی ہے جو جیل میں بند ہے، حضرت یوسف ؑ کو بلایا گیا، آپ نے آنے والے سے کہا کہ پہلے اپنے آقا سے کہو کہ ان عورتوں سے معلو م کرو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے، بادشاہ نے عورتوں سے دریافت کیا، سب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام جیل خانے سے باہر نکلے۔ باقی قصہ اگلے (۱۳؍ویں ) پارے میں ہے۔