06 Safar 1447

پاکستان میں سولر انقلاب، مڈل کلاس کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے

اپریل کے مہینے میں جب کراچی شدید گرمی کی لپیٹ میں تھا اور درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا تھا، تو کاروباری شخصیت سعد سلیم بلاخوف اپنے بنگلے میں ایئر کنڈیشنر چلا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے ہی اپنی چھت پر 7,500 ڈالر کی لاگت سے سولر پینلز نصب کر چکے تھے — ایک ایسا قدم جو پاکستان میں بڑھتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جہاں عوام بڑی تعداد میں شمسی توانائی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

سعد سلیم نے یہ سولر سسٹم اُس وقت نصب کیا تھا جب پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان ابتدائی بیل آؤٹ پیکج پر مذاکرات جاری تھے۔ اس معاہدے کے تحت حکومتِ پاکستان نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافہ کیا تاکہ توانائی کے شعبے میں مالی مشکلات کا سامنا کرنے والی کمپنیوں کو سہارا دیا جا سکے۔

آج ملک بھر میں عوام کو بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا سامنا ہے، جس کے باعث بے شمار افراد نے سولر پینلز کی تنصیب کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔

کہ2023 میں شمسی توانائی پاکستان کی توانائی فراہمی کا 14 فیصد حصہ بن چکی تھی، جو کہ 2021 میں صرف 4 فیصد تھی۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے جس کے باعث سولر توانائی ملک کا تیسرا سب سے بڑا توانائی ذریعہ بن چکی ہے، جس نے کوئلے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ معلومات برطانیہ میں قائم انرجی تھنک ٹینک "ایمبر" کی رپورٹ کے مطابق ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں سولر انرجی کی ترقی کی رفتار چین سے بھی آگے نکل چکی ہے — حالانکہ چین دنیا کا سب سے بڑا سولر پینل بنانے والا ملک ہے۔ رائٹرز کی جانب سے ایمبر کے ڈیٹا کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ایشیا بھر میں پاکستان شمسی توانائی کے استعمال میں نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے۔

تاہم، جہاں ایک طرف سولر انرجی کا رجحان بڑھ رہا ہے، وہیں متوسط طبقے کے شہری افراد پیچھے رہ گئے ہیں۔ مہنگی بجلی کے باوجود یہ لوگ سولر سسٹمز تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے، حالانکہ وہ اپنے بل کم کرنے کے لیے بجلی کے استعمال میں کمی کر چکے ہیں۔

پاکستان میں نصب شدہ بیشتر سولر پینلز نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں، جس کا مطلب ہے کہ سستی اور قابلِ بھروسہ شمسی توانائی کا فائدہ سب کو نہیں مل رہا۔ جب امیر طبقہ سولر پر منتقل ہو جاتا ہے اور نیشنل گرڈ سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے، تو باقی صارفین پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، اور بجلی مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔

کراچی میں قائم توانائی مشاورتی فرم "ارزاخیل" کے مطابق، بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں جب اپنے زیادہ ادائیگی کرنے والے صارفین کھو بیٹھتی ہیں تو باقی صارفین سے اخراجات پورے کرنے کے لیے نرخ بڑھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

ایسا رجحان جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں بھی دیکھا جا رہا ہے، جہاں امیر لوگ سولر سسٹمز اپنا کر مہنگی بجلی سے بچ رہے ہیں، اور کم آمدنی والے افراد پر زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے۔ تاہم، ماہرین پاکستان کی صورتحال کو خاص اہمیت دے رہے ہیں، کیونکہ یہاں کی 25 کروڑ کی آبادی میں یہ تبدیلی بڑے پیمانے پر اثر ڈال سکتی ہے۔

اسلام آباد میں قائم انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس کی ماہر حنیہ اسعد کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سولر کی طرف تیزی سے رخ کرنا پالیسی سازی کے لیے ایک سبق ہے کہ قوانین کو ٹیکنالوجی اور معیشت میں تبدیلیوں کے مطابق ڈھالا جانا چاہیے۔

وزیر توانائی اویس لغاری نے رائٹرز سے گفتگو میں تسلیم کیا کہ ملک میں توانائی کے شعبے میں فرق بڑھ رہا ہے، تاہم انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ جون 2024 کے بعد آئی ایم ایف کی منظوری سے بجلی کے نرخوں میں کمی کی گئی ہے۔

انہوں نے دیہی علاقوں میں سولر انرجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو بھی اجاگر کیا، جہاں نیشنل گرڈ کی رسائی محدود ہے۔ وہاں کے گھریلو صارفین نے اپنی کم توانائی ضروریات پوری کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے کے سولر سسٹمز اختیار کر لیے ہیں۔

اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان میں سولر انرجی کی ایک "خاموش انقلاب" کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ہمارا نیشنل گرڈ روز بروز صاف تر ہو رہا ہے، اور یہ ایک قومی کامیابی ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔

دوسری جانب، آئی ایم ایف کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

X