رضامندی کی عمر اور عقیدے کی سرحدیں

کراچی: بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس اور ہمدرد افراد نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف نئے قانون کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کو محفوظ رکھنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔

آئی سی ٹی چائلڈ میریج ریسٹینٹ ایکٹ، 2025 پاکستان کے لیے ایک بڑا قدم ہے۔ یہ نیا قانون ملک کے بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کو، ایسے بری رسم و رواج سے بچانے کا عزم ظاہر کرتا ہے جو ان کی زندگی، صحت اور مستقبل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ قانون کے مطابق کوئی بھی 18 سال سے کم عمر میں شادی نہیں کر سکتا۔ یہ لڑکیوں کو اسکول میں رہنے اور مضبوط رہنما بننے میں مدد دیتا ہے۔ نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی) کی سربراہ عائشہ رضا فاروق نے پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے بھی یہی اصول اپنانے اور بچوں کے تحفظ کے لیے اپنے قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست کی ہے۔

چائلڈ رائٹس کے ماہر سید مقداد مہدی نے کہا کہ اگرچہ قوانین کو بعد میں بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن یہ ایکٹ کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے ایک مضبوط قدم ہے۔ آئی سی ٹی چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2025 بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔ یہ قانون کم عمری کی شادی کو جرم قرار دیتا ہے اور اسے بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور اسمگلنگ تصور کرتا ہے، جو کہ قومی اور عالمی بچوں کے تحفظ کے اصولوں کے مطابق ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ قانون پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے دیگر علاقوں کے لیے ایک مثال بنے گا تاکہ وہ بھی اس سنگین انسانی حقوق کے مسئلے کے خلاف اپنے قوانین کو بہتر بنا سکیں۔

محفوظ اور بہتر پاکستان کی طرف جانے والا راستہ ایسے مضبوط قوانین سے شروع ہوتا ہے جو بچوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ بچوں کی شادیوں کو روکنے اور ان کے بنیادی حقوق کا دفاع کرنے کے لیے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ((این سی آر سی) میں ایک نئے قانون کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں بچوں کی شادیوں کی عام صورت حال

یہ قانون بچوں کی شادیوں کو روکنے کے لیے بنایا گیا تھا، جو پاکستان میں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستان کی ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے (پی ڈی ایچ ایس) 2017-2018 کے مطابق 15 سال سے کم عمر کی 3.6 فیصد لڑکیاں شادی شدہ ہیں، اور شادی شدہ لڑکیوں میں سے 18.3 فیصد 18 سال سے کم عمر ہیں۔ یونیسیف کے مطابق 21 فیصد پاکستانی لڑکیاں 18 سال کی عمر تک شادی شدہ ہو جاتی ہیں، اور 3 فیصد لڑکیاں 15 سال کی عمر سے پہلے شادی کر لیتی ہیں۔

سال 2019 میں، عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ پاکستان میں 21 فیصد شادیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہو چکی تھیں۔

رپورٹ ورلڈ بینک کی مطابق، پاکستان میں 18 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر لیتی ہیں، اور 4 فیصد لڑکیاں 15 سال سے پہلے شادی کر لیتی ہیں۔ یہ بھی کہتی ہے کہ 5 فیصد لڑکے 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر لیتے ہیں۔ 2020 میں، پاکستان میں 119 بچوں کی شادی کے کیس رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 95 فیصد کیسز لڑکیوں کے اور 5 فیصد لڑکوں کے شامل تھے، یہ بات سہیل، اسلام آباد میں واقع ایک این جی او جو بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے، نے بتائی۔

پاکستان میں بچوں کی شادی کئی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ سب سے بڑی وجوہات کمزور قوانین اور ان قوانین کو نافذ کرنے کی مضبوط کوششوں کا فقدان ہے۔ لوگ، خاص طور پر قبائلی اور جاگیردار علاقوں میں، نہیں جانتے کہ بچوں کی شادی کتنی نقصان دہ ہے۔ غربت، کم تعلیم، اور بری روایات بھی اس کی وجہ بنتی ہیں۔ کچھ مذہبی عقائد اس عمل کی حمایت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، بچوں کی شادی اکثر زبردستی مذہبی تبدیلی کے ساتھ ہوتی ہے۔ سندھ میں کئی ہندو لڑکیوں اور پنجاب میں مسیحی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بڑے مردوں سے شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جب کہ انہیں مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔

بچوں کی شادی ایک قسم کا جنسی ظلم ہے جس میں بچہ زبردستی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے اور اپنی بچپن کی عمر کھو دیتا ہے۔ یہ بچے کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے اور اس کی تعلیم، ذاتی اور سماجی ترقی کو روک دیتی ہے۔ لڑکیاں جو کم عمر میں شادی کرتی ہیں، عام طور پر دوسرے بچوں کے مقابلے میں جلدی اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ کم عمری کی شادی زیادہ بچوں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے جو آبادی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ کم عمر دلہنوں کو حمل کے دوران زیادہ صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے بچے بھی اکثر صحت کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سی مائیں اور بچے کم عمری کی شادی کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کم عمر لڑکیاں جو جلدی شادی کرتی ہیں، ان کے ساتھ گھریلو تشدد کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں بمقابلہ ان لڑکیوں کے جو بعد میں شادی کرتی ہیں۔

غربت کی وجہ بچپن میں شادی ہے کیونکہ لڑکیاں اکثر اسکول چھوڑ دیتی ہیں اور مہارتیں سیکھنے کے مواقع سے محروم رہتی ہیں، جس سے ان کی آمدنی کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

آئی سی ٹی چائلڈ میرج ریسٹینٹ ایکٹ، 2025

۔بنیاد میں، 29 مئی کو صدر کی منظوری کے بعد اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ، 2025 قانون بن گیا۔ پاکستان کے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) پر یہ قانون نافذ ہوتا ہے۔ ایم این اے شرمیلا فاروقی نے نیشنل اسمبلی میں بل پیش کیا جہاں یہ 16 مئی کو منظور ہوا۔ بعد میں سینیٹر شیری رحمٰن نے اسے سینیٹ میں پیش کیا۔ سخت بحث کے باوجود اور جے یو آئی-ایف کے مطالبے کے باوجود کہ بل کو کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی (سی آئی آئی) بھیجا جائے، سینیٹ نے اکثریتی رائے سے 19 مئی کو بل منظور کر لیا۔

اور 27 مئی کو سی آئی آئی نے بل کو غیر اسلامی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ 29 مئی کو این سی آر سی، جو ایک قانونی ادارہ ہے، نے سی آئی آئی کے تحفظات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ تونس، اردن، مصر اور مراکش جیسے کئی مسلم ممالک نے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے کم از کم شادی کی عمر 18 سال مقرر کی ہے، تاکہ بین الاقوامی قوانین کی پیروی کرتے ہوئے بچپن کی شادی سے نقصان کو روکا جا سکے۔ 2023 میں، فیڈرل شریعت کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ریاست کو کم از کم شادی کی عمر مقرر کرنے کا حق حاصل ہے، جس میں سندھ چائلڈ میرج ریسٹینٹ امینڈمنٹ ایکٹ 2013 کا حوالہ دیا گیا ہے۔

قانون کی نمایاں خصوصیات

نیا قانون کہتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیے۔ یہ قانون ناانصافی کو روکنے اور لڑکوں اور لڑکیوں کے برابر حقوق کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔ اگر والدین یا سرپرست بچوں کی شادی کی اجازت دیتے ہیں یا اسے روکنے میں ناکام رہتے ہیں، تو وہ 2 سے 3 سال قید کی سزا پا سکتے ہیں اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔

دونوں افراد جو نکاح کر رہے ہیں، اُنہیں اپنا نادرا کا جاری کردہ شناختی کارڈ نکاھ رجسٹرار کو دینا ہوگا۔ اگر نکاح پڑھانے والا شخص اس قانون پر عمل نہیں کرتا، تو اسے ایک سال تک قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ یہ شناختی کارڈ کا قانون اقلیتی لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب کو روکنے میں بھی مدد دے گا کیونکہ اس سے ان کی عمر کے بارے میں جھوٹ بولنا مشکل ہو جائے گا۔

اگر کوئی مرد 18 سال سے زیادہ عمر کا ہو اور کسی بچے سے شادی کرے، تو اسے 2 سے 3 سال کی قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ 18 سال کی عمر سے پہلے بچپن کی شادی میں اکٹھے رہنا بچوں پر تشدد کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بچی یا بچے کو زبردستی، دباؤ یا دھوکے سے میاں بیوی کی طرح ساتھ رکھے، تو اسے 5 سے 7 سال قید اور کم از کم دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اگر کوئی بچہ اسلام آباد سے شادی کے لیے لے جایا جائے، تو لے جانے والے کو 5 سے 7 سال قید اور جرمانہ ہوگا۔

ضلع اور سیشن جج کی عدالت اس قانون کے تحت کسی بھی جرم کو دیکھے گی یا اس پر کارروائی کرے گی۔ اگر کوئی شخص تحریری درخواست دے کہ اس قانون کے خلاف ایک کم عمری کی شادی ہونے والی ہے، تو عدالت سب سے پہلے ایک نوٹس بھیجے گی، پھر حکم دے کر شادی کو روک دے گی۔ اگر درخواست گزار چاہے کہ اس کا نام ظاہر نہ ہو، تو عدالت اس کا نام خفیہ رکھنے کے لیے اقدامات کرے گی۔

۔یہ نیا قانون اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں بچوں کی شادی کو روکنے والے 1929 کے قانون کو ختم کر دیتا ہے۔۔عدالت کو لازمی ہے کہ مقدمہ 90 دنوں میں مکمل کرے۔۔یہ قانون کے تحت جرم سنگین ہوگا، ضمانت نہیں دی جائے گی، اور فریقین کے درمیان صلح نہیں کی جا سکتی۔

دوسرے قوانین کیا کہتے ہیں؟

اور 2010 کے بعد، بچوں کی شادیوں کو روکنا ہر صوبے کا مسئلہ بن گیا۔ سندھ واحد صوبہ ہے جس نے 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کا قانون بنایا۔ سندھ چائلڈ میریجز ریسٹینٹ ایکٹ، 2013، بچوں کی شادی کو سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ پولیس بغیر انتظار کیے ملزمان کو گرفتار کر سکتی ہے اور خاندان یا مقامی کونسل قانون کو نظر انداز کرنے کے لیے سودے نہیں کر سکتے۔

پنجاب میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ، 2015 کے تحت لڑکیاں 16 سال کی عمر میں شادی کر سکتی ہیں، جبکہ لڑکوں کی کم از کم عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہونی چاہیے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان 1929 کے ایکٹ کی پیروی کرتے ہیں، جو لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال مقرر کرتا ہے۔

۔کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے۔ لازمی ہے کہ پاکستان اپنے قوانین کو ان معاہدوں کے مطابق تبدیل کرے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ حقوق خواتین اور بچپن کی شادی کو روکنے کے لیے پاکستان نے یہ قوانین ماننے کا وعدہ کیا ہے۔ کم از کم شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے والے عالمی معاہدات جیسے یو این سی آر سی اور سی ای ڈی اے ڈبلیو کی پیروی کرنا بہت اہم ہے

ہے پاکستان کی ماضی کی تجاویز پر عمل کرنے کی رضامندی ظاہر کرتا ہے کیونکہ یہ کمیٹی کی نظر میں اچھا اقدام سمجھا جائے گا۔ بچوں کے حقوق کی اقوام متحدہ کی کمیٹی پاکستان کی چھٹی اور ساتویں مشترکہ رپورٹس کے جائزے کے اہم موقع پر نئے قانون کی منظوری دی گئی ہے

۔کسی بھی ملک بشمول پاکستان کی جانب سے 2030 تک 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادیاں روکنے کا وعدہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جیز) میں شامل ہے۔ مقصد 5 جنس کی برابری کے لیے ہے اور ہدف 5.3 خاص طور پر بچوں کی شادیوں کو ختم کرنے پر کام کرتا ہے۔

اب آگے کیا؟

ملک میں کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے مکمل قوانین، ضوابط اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بچوں کو کم عمری کی شادی سے بچانے کے لیے درج ذیل فوری اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔

وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر آئی سی ٹی چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2025 کے لیے قواعد و ضوابط بنائے۔ دیگر صوبوں اور علاقوں کو بھی چاہیے کہ وہ اسی قسم کے قوانین جلد از جلد منظور کریں۔ اس سے کم عمری کی شادیوں کو روکنے اور بچوں کو اس غیر منصفانہ عمل سے بچانے میں مدد ملے گی۔

عیسائی شادی (ترمیم) ایکٹ، 2024 قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے اور اب صرف اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں نافذ العمل ہے۔ تمام صوبائی اسمبلیوں کو فوری طور پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 144 کے تحت قرارداد منظور کرنی چاہیے اور اس کو اپنے اپنے صوبوں میں نافذ کرنے کے لیے قانونی اقدامات پر عمل کرنا چاہیے۔

ہندو میرج ایکٹ 2017 پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت بنایا گیا تھا۔ یہ قانون اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں نافذ العمل ہے۔ سندھ میں ہندو شادی کے لیے الگ قانون موجود ہے۔ اس قانون کے مطابق شادی کے لیے قانونی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ اقلیتی ذاتی قوانین مقامی قوانین پر فوقیت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی علاقے میں لڑکی کی شادی کی عمر 16 سال ہو، تب بھی یہ قانون ہندو لڑکیوں پر لاگو نہیں ہوگا۔ اس قانون پر عمل کے لیے صرف بنیادی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

پنجاب سکھ آنند کارج میرج ایکٹ 2018 کو نافذ کرنے کے لیے کچھ انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک مضبوط مقامی حکومت کا نظام آنند کارج رجسٹرار اور سنگت کو شادی کا اندراج کرنے میں مدد فراہم کرے۔

مقامی حکومتوں کو مکمل اختیار ہونا چاہیے تاکہ وہ قوانین پر درست طریقے سے عملدرآمد کو یقینی بنا سکیں۔ کم عمری کی شادی کا شکار افراد کے لیے اضافی مدد کی ضرورت ہے۔ ان کی حفاظت، رازداری اور صحتیابی کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ انہیں ایسی معاونت ملنی چاہیے جیسے مفت قانونی مدد، عدالت میں فوری کارروائی، اور ذہنی صحت و بحالی کے لیے دیکھ بھال۔

۔بچوں کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنانے میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو مدد اور دباؤ دینا چاہیے۔ بچوں کے نکاح کے کیسز سنبھالنے والے ججز، پولیس اور ڈاکٹرز جیسے سرکاری ملازمین کو تربیت دی جانی چاہیے اور انہیں ذمہ دار بنایا جانا چاہیے۔

پورے ملک میں ایک مہم چلائی جا سکتی ہے تاکہ بچوں کی شادی کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں آگاہی بڑھائی جا سکے۔ لوگوں کو بچوں کی شادی سے ہونے والے نقصان اور اس کے خلاف سخت قوانین کے بارے میں جاننا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو بدسلوکی اور استحصال سے بچانے کے لیے محتاط رہیں۔ تمام بچوں کی تعلیم ضروری ہے تاکہ بچوں کی شادی کو روکا جا سکے۔ یہ آئندہ نسلوں کو ایک .بہتر پاکستان میں صحت مند اور آزاد زندگی گزارنے میں مدد دے گا

X