سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے سائبیریا، روس میں اچانک بننے والے عجیب و غریب گڑھوں کے راز کو آخرکار حل کر لیا ہے۔ یہ دیوہیکل گڑھے، جنہیں GECs کہا جاتا ہے، سب سے پہلے 2012 میں مغربی سائبیریا کے یامال اور گیدان علاقوں میں دریافت کیے گئے تھے۔ ان کی گہرائی 164 فٹ تک ہے اور یہ مٹی اور برف کو سینکڑوں فٹ تک فضا میں اچھالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک ماہرین نے ان بڑے گڑھوں کی تشکیل کی اصل وجہ تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ مختلف نظریات پیش کیے گئے، جن میں شہابِ ثاقب کے ٹکرانے اور قدرتی گیس کے دھماکے شامل تھے۔ لیکن یہ تمام وضاحتیں اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں کہ یہ گڑھے صرف سائبیریا کے چند مخصوص علاقوں میں ہی کیوں وجود میں آئے اور آرکٹک کے دیگر منجمد حصوں میں کیوں نہیں پائے گئے۔
ایک نئی تحقیق نے اب ان کے وجود کی ممکنہ وضاحت پیش کی ہے، یہ تحقیق جرنل سائنس آف دی ٹوٹل انوائرنمنٹ میں شائع ہوئی اور اس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ گڑھے صرف یامال اور گیدان میں دیکھے گئے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ ان علاقوں میں کوئی خاص عنصر ان کی تشکیل کا سبب ہے، محققین نے بتایا کہ حال ہی میں دریافت ہونے والے آٹھ گیس خارج کرنے والے گڑھوں نے پرانی تھیوریز کو چیلنج کیا ہے کیونکہ یہ گڑھے صرف اسی محدود علاقے میں پائے گئے ہیں، اور اس تحقیق نے دو بنیادی عوامل کو اجاگر کیا جو صرف ان علاقوں میں موجود ہیں: زیر زمین گیس کے ذخائر اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت۔
تحقیق کے مطابق یہ گڑھے اس وقت بنتے ہیں جب زمین کی گہرائی میں گرمی اور گیس میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے اوپر کی برفانی تہہ پگھل کر کمزور ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی گیس کا دباؤ بڑھتا ہے اور گرم موسم مزید برف کو پگھلا دیتا ہے، سطح اچانک پھٹ جاتی ہے اور ایک بہت بڑا گڑھا بن جاتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا مرکزی نکتہ زیرِ زمین گرمی اور گیس ہیں، جو غالباً جی ای سی کی تشکیل کے بنیادی عوامل ہیں۔ محققین کو توقع ہے کہ مزید فیلڈ اسٹڈیز اور کمپیوٹر سمیولیشنز اس نظریے کی تصدیق کریں گی۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ مستقبل میں سائبیریا میں ایسے مزید گڑھے دریافت ہونے کے امکانات موجود ہیں۔