حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
فیض احمد فیض

حسرت دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے

دشت امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

دیر سے آنکھ پہ اترا نہیں اشکوں کا عذاب

اپنے ذمے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے

کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب

درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے

سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل

ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے کب سے

پر کرو جام کہ شاید ہو اسی لحظہ رواں

روک رکھا ہے جو اک تیر قضا نے کب سے

فیضؔ پھر کب کسی مقتل میں کریں گے آباد

لب پہ ویراں ہیں شہیدوں کے فسانے کب سے

Pakistanify News Subscription

X