جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
مرزا غالب

جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی

نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی

کشاکش‌ ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادی

ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی

پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے

شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

نہ کھینچ اے سعیٔ دست نارسا زلف تمنا کو

پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانی کی

کہاں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے

نہ کھینچے طاقت خمیازہ تہمت ناتوانی کی

تکلف برطرف فرہاد اور اتنی سبکدستی

خیال آساں تھا لیکن خواب خسرو نے گرانی کی

اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موج ہستی نے

فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی

Pakistanify News Subscription

X