رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
مینائے مے ہے سرو نشاط بہار سے
بال تدرو جلوۂ موج شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پاۓ ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
جاداد بادہ نوشی رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظارہ کیا حریف ہو اس برق حسن کا
جوش بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نا مراد دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرت پیغام یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشک سوال و جواب ہے
ظاہر ہے طرز قید سے صیاد کی غرض
جو دانہ دام میں ہے سو اشک کباب ہے
بے چشم دل نہ کر ہوس سیر لالہ زار
یعنی یہ ہر ورق ورق انتخاب ہے
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information