ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے
ہے دور قدح وجہ پریشانی صہبا
یک بار لگا دو خم مے میرے لبوں سے
رندان در مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے
بیداد وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
کیا پوچھے ہے بر خود غلطیہائے عزیزاں
خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سے
گو تم کو رضا جوئی اغیار ہے لیکن
جاتی ہے ملاقات کب ایسے سببوں سے
مت پوچھ اسدؔ وعدۂ کم فرصتیٔ زیست
دو دن بھی جو کاٹے تو قیامت تعبوں سے
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information