حریف مطلب مشکل نہیں فسون نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمر خضر دراز
نہ ہو بہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجود
ہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب و فراز
وصال جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں
کہ دیجے آئنۂ انتظار کو پرداز
ہر ایک ذرۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوئے پر ہواۓ جلوۂ ناز
نہ پوچھ وسعت مے خانۂ جنوں غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز
فریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئنہ ساز
ز بسکہ جلوۂ صییاد حیرت آرا ہے
اڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورت پرواز
ہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہے
کہ شیشہ نازک و صہبائے آبگینہ گداز
اسدؔ سے ترک وفا کا گماں وہ معنی ہے
کہ کھینچیے پر طائر سے صورت پرواز
ہنوز اے اثر دید ننگ رسوائی
نگاہ فتنہ خرام و در دو عالم باز