بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار
نگاہ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
وفور اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار
نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار
ہوئی ہے کس قدر ارزانی مۓ جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار
جو ہے تجھے سر سوداۓ انتظار تو آ
کہ ہیں دکان متاع نظر در و دیوار
ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
وہ آ رہا مرے ہم سایے میں تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
نہ پوچھ بے خودی عیش مقدم سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بہ سر در و دیوار
نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانے میں
حریف راز محبت مگر در و دیوار