دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
مرزا غالب

دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں

یعنی ہمارے جیب میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیاز حسرت دیدار کر چکے

دیکھا تو ہم میں طاقت دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں

طاقت بقدر لذت آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے ہے سر وبال دوش

صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجایش عداوت اغیار یک طرف

یاں دل میں ضعف سے ہوس یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے خدا کو مان

آخر نوائے مرغ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صف مژگاں سے روکشی

حالانکہ طاقت خلش خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا

دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

Pakistanify News Subscription

X