گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو
ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں ہو تو کیونکر ہو
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو
تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو
الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو
جسے نصیب ہو روز سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو
ہمیں پھر ان سے امید اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وہ تو کیونکر ہو
غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو تو کیونکر ہو
بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
وہ نیش ہو رگ جاں میں فرو تو کیونکر ہو
مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقول حضور
فراق یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information