دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہئے
ہوا رقیب تو ہو نامہ بر ہے کیا کہئے
یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے
رہے ہے یوں گہہ و بے گہہ کہ کوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے کیا کہئے
زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی انہیں سب خبر ہے کیا کہئے
سمجھ کے کرتے ہیں بازار میں وہ پرسش حال
کہ یہ کہے کہ سر رہ گزر ہے کیا کہئے
تمہیں نہیں ہے سر رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے مگر ہے کیا کہئے
انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئے
کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے کیا کہئے
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information