جاناں دل کا شہر نگر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے
کس چاہت سے زہر تمنا مانگا تھا
اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
اک دہلیز پہ جا کر دل خوش ہوتا تھا
اب تو شہر میں ہر اک در افسوس کا ہے
ہم نے عشق گناہ سے برتر جانا تھا
اور دل پر پہلا پتھر افسوس کا ہے
قربت کے اس پیڑ کی شاخوں پر دیکھو
پھول اداسی کا ہے ثمر افسوس کا ہے
ہار کے دکھ سے پچھتاوا بڑھ کر ہے فرازؔ
دکھ کا نہیں افسوس مگر افسوس کا ہے