منزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں
مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
کوئی قاصد ہو کہ ناصح کوئی عاشق کہ عدو
سب کی اس شوخ سے وابستگیاں ایک سی ہیں
دشت مجنوں نہ سہی تیشۂ فرہاد سہی
سفر عشق میں واماندگیاں ایک سی ہیں
یہ الگ بات کہ احساس جدا ہوں ورنہ
راحتیں ایک سی افسردگیاں ایک سی ہیں
صوفی و رند کے مسلک میں سہی لاکھ تضاد
مستیاں ایک سی وارفتگیاں ایک سی ہیں
وصل ہو ہجر ہو قربت ہو کہ دوری ہو فرازؔ
ساری کیفیتیں سب تشنگیاں ایک سی ہیں