کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے
احمد مشتاق

کس جھٹپٹے کے رنگ اجالوں میں آ گئے

ٹکڑے شفق کے دھوپ سے گالوں میں آ گئے

افسردگی کی لے بھی ترے قہقہوں میں تھی

پت جھڑ کے سر بہار کے جھالوں میں آ گئے

اڑ کر کہاں کہاں سے پرندوں کے قافلے

نادیدہ پانیوں کے خیالوں میں آ گئے

حسن تمام تھے تو کوئی دیکھتا نہ تھا

تم درد بن کے دیکھنے والوں میں آ گئے

کانٹے سمجھ کے گھاس پہ چلتا رہا ہوں میں

قطرے تمام اوس کے چھالوں میں آ گئے

کچھ رتجگے تھے جن کی ضرورت نہیں رہی

کچھ خواب تھے جو میرے خیالوں میں آ گئے

Pakistanify News Subscription

X