چشم و لب کیسے ہوں رخسار ہوں کیسے تیرے
احمد مشتاق

چشم و لب کیسے ہوں رخسار ہوں کیسے تیرے

ہم خیالوں میں بناتے رہے نقشے تیرے

تیرے ساونت کو سولی کی زباں چاٹ گئی

جسم ابھی گرم تھا اور بال تھے گیلے تیرے

کیا کہوں کیا ترے افسردہ دلوں پر گزری

کیسے تاراج ہوئے آئینہ خانے تیرے

اب کہاں دیکھنے والوں کو یقیں آئے گا

باغ جنت تھا بدن خواب تھے بوسے تیرے

Pakistanify News Subscription

X