ٹوٹ گیا ہوا کا زور سیل بلا اتر گیا
سنگ و کلوخ رہ گئے لہر گئی بھنور گیا
وہ بھی عجیب دور تھا دل کا چلن ہی اور تھا
شام ہوئی تو جی اٹھا صبح ہوئی تو مر گیا
کس کے بندھے ہوئے تھے ہم دامن ماہتاب سے
ہم بھی ادھر ادھر گئے چاند جدھر جدھر گیا
کتنے رفیق و ہم سفر جن کی ملی نہ کچھ خبر
کس کے قدم اٹھے کدھر کون کہاں پسر گیا
بجھ گئی رونق بدن اڑ گیا رنگ پیرہن
جان امیدوار من وقت بہت گزر گیا