کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ
پروین شاکر

کھلے گی اس نظر پہ چشم تر آہستہ آہستہ

کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ

کوئی زنجیر پھر واپس وہیں پر لے کے آتی ہے

کٹھن ہو راہ تو چھٹتا ہے گھر آہستہ آہستہ

بدل دینا ہے رستہ یا کہیں پر بیٹھ جانا ہے

کہ تھکتا جا رہا ہے ہم سفر آہستہ آہستہ

خلش کے ساتھ اس دل سے نہ میری جاں نکل جائے

کھنچے تیر شناسائی مگر آہستہ آہستہ

ہوا سے سرکشی میں پھول کا اپنا زیاں دیکھا

سو جھکتا جا رہا ہے اب یہ سر آہستہ آہستہ

مری شعلہ مزاجی کو وہ جنگل کیسے راس آئے

ہوا بھی سانس لیتی ہو جدھر آہستہ آہستہ

Pakistanify News Subscription

X