آہ اثر ہو گئی تو کیا ہوگا
بہزاد لکھنوی

آہ اثر ہو گئی تو کیا ہوگا

بے اثر ہو گئی تو کیا ہوگا

شام غم آ چلے تصور میں

اب سحر ہو گئی تو کیا ہوگا

وہ نظر جس کو ہے خبر میری

بے خبر ہو گئی تو کیا ہوگا

داستاں عشق کی طویل تو ہے

مختصر ہو گئی تو کیا ہوگا

شب نہ کاٹے کٹی تو ہوگا کیا

اور بسر ہو گئی تو کیا ہوگا

آہ گو دل سے ہم نہیں کرتے

کارگر ہو گئی تو کیا ہوگا

روبرو ان کے چپ تو ہوں بہزادؔ

آنکھ تر ہو گئی تو کیا ہوگا

Pakistanify News Subscription

X