شب تھی نظر میں شام سے پہلے
واقف تھا انجام سے پہلے
رہبر منزل بن جاتی ہے
یاد تری ہر گام سے پہلے
میرا فسانہ سننے والو
کچھ بھی نہیں اس نام سے پہلے
ہوش تو اب ہے اللہ اللہ
ہوش کہاں تھا جام سے پہلے
کیا ہے یہی انعام محبت
سوچ تو لو الزام سے پہلے
آتے ہی جانے کی کیا سوجھی
بیٹھو تو آرام سے پہلے
یہ تو نہ تھا بہزادؔ کا عالم
عشق کے اس انعام سے پہلے