کبھی یوں ملیں کوئی مصلحت کوئی خوف دل میں ذرا نہ ہو
مجھے اپنی کوئی خبر نہ ہو تجھے اپنا کوئی پتہ نہ ہو
کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں دل و جاں سے دونوں قبول ہیں
مگر اس محل میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو
وہ ہزار باغوں کا باغ ہو تری برکتوں کی بہار سے
جہاں کوئی شاخ ہری نہ ہو جہاں کوئی پھول کھلا نہ ہو
ترے اختیار میں کیا نہیں مجھے اس طرح سے نواز دے
یوں دعائیں میری قبول ہوں مرے لب پہ کوئی دعا نہ ہو
کبھی ہم بھی اس کے قریب تھے دل و جاں سے بڑھ کے عزیز تھے
مگر آج ایسے ملا ہے وہ کبھی پہلے جیسے ملا نہ ہو