اسی لیے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں
بشیر بدر

اسی لیے تو یہاں اب بھی اجنبی ہوں میں

تمام لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں

ضعیف بوڑھی جو پل پر اداس بیٹھی ہے

اسی کی آنکھ میں لکھا ہے زندگی ہوں میں

ہے پکی عمروں کی اک بے زبان سی لڑکی

اسی کا رشتہ ہوں اور وہ بھی آخری ہوں میں

تمام رات چراغوں میں مسکراتی تھی

وہ اب نہیں ہے مگر اس کی روشنی ہوں میں

کہیں میں اور تھا مغرب کی جو اذاں نہ سنی

ان آنسوؤں میں سحر کی نماز بھی ہوں میں

ستارے راہ کے ہیں میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ

قلم ہوں بچے کا تختی نئی نئی ہوں میں

اگر وہ چاہیں تو زندہ جلا بھی سکتے ہیں

دعا کے ہاتھ حکومت کی بے بسی ہوں میں

Pakistanify News Subscription

X