خود اپنے آپ سے شرمندگی سی ہوتی ہے
کبھی کبھی تو بڑی بے دلی سی ہوتی ہے
سلگتی دھوپ گھنی چاندنی سی ہوتی ہے
تمہارے ساتھ یہ دنیا نئی سی ہوتی ہے
گلے میں اس کے خدا کی عجیب برکت ہے
وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے
وہ گنگناتا ہے بیلے کے پھول کھلتے ہیں
تمام گھر میں بچھی چاندنی سی ہوتی ہے
کرن نکلنے سے پہلے گلاب دیکھے ہیں
تمہاری یاد میں وہ تازگی سی ہوتی ہے
وہ مسکراتی ہوئی دھوپ جیسی آنکھوں میں
گھنیری پلکوں کے پیچھے نمی سی ہوتی ہے
مری غزل کسی پردہ نشیں کا قصہ ہے
اگر سناؤں تو بے پردگی سی ہوتی ہے
میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے