بے وفا راستے بدلتے ہیں
ہم سفر ساتھ ساتھ چلتے ہیں
کس کے آنسو چھپے ہیں پھولوں میں
چومتا ہوں تو ہونٹ جلتے ہیں
اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو
مندروں میں چراغ جلتے ہیں
دل میں رہ کر نظر نہیں آتے
ایسے کانٹے کہاں نکلتے ہیں
ایک دیوار وہ بھی شیشے کی
دو بدن پاس پاس جلتے ہیں
وہ ستارے مرے ستارے ہیں
جو بھری دھوپ میں نکلتے ہیں
کانچ کے موتیوں کے آنسو کے
سب کھلونے غزل میں ڈھلتے ہیں