تلوار سے کاٹا ہے پھولوں بھری ڈالوں کو
دنیا نے نہیں چاہا ہم چاہنے والوں کو
میں آگ تھا پھولوں میں تبدیل ہوا کیسے
بچوں کی طرح چوما اس نے مرے گالوں کو
اخلاق وفا چاہت سب قیمتی کپڑے ہیں
ہر روز نہ اوڑھا کر ان ریشمی شالوں کو
برسات کا موسم تو لہرانے کا موسم ہے
اڑنے دو ہواؤں میں بکھرے ہوئے بالوں کو
چڑیوں کے لئے چاول پودوں کے لئے پانی
تھوڑی سی محبت دے ہم چاہنے والوں کو
اب راکھ بٹوریں گے الفاظ کے سوداگر
میں آگ پہ رکھ دوں گا نایاب رسالوں کو
مولا مجھے پانی دے میں نے نہیں مانگا تھا
چاندی کی صراحی کو سونے کے پیالوں کو