خواب ان آنکھوں سے اب کوئی چرا کر لے جائے
بشیر بدر

خواب ان آنکھوں سے اب کوئی چرا کر لے جائے

قبر کے سوکھے ہوئے پھول اٹھا کر لے جائے

منتظر پھول میں خوشبو کی طرح ہوں کب سے

کوئی جھونکے کی طرح آئے اڑا کر لے جائے

یہ بھی پانی ہے مگر آنکھوں کا ایسا پانی

جو ہتھیلی سے رچی مہندی چھڑا کر لے جائے

میں محبت سے مہکتا ہوا خط ہوں مجھ کو

زندگی اپنی کتابوں میں چھپا کر لے جائے

خاک انصاف ہے نا بینا بتوں کے آگے

رات تھالی میں چراغوں کو سجا کر لے جائے

ان سے کہنا کہ میں پیدل نہیں آنے والا

کوئی بادل مجھے کاندھے پہ بٹھا کر لے جائے

Pakistanify News Subscription

X