میکدہ رات غم کا گھر نکلا
دل حویلی تلے کھنڈر نکلا
میں اسے ڈھونڈھتا تھا آنکھوں میں
پھول بن کر وہ شاخ پر نکلا
کس کے سائے میں سر چھپاؤ گے
وہ شجر دھوپ کا شجر نکلا
اس کا آنچل بھی کوئی بادل تھا
وہ ہواؤں کا ہم سفر نکلا
کوئی کاغذ نہ تھا لفافے میں
صرف تتلی کا ایک پر نکلا
جب سے جانا کہ وہ بہادر ہیں
دل سے کچھ دشمنوں کا ڈر نکلا
زندگی اک فقیر کی چادر
جب ڈھکے پاؤں ہم نے سر نکلا