آنسوؤں کی جہاں پائمالی رہی
بشیر بدر

آنسوؤں کی جہاں پائمالی رہی

ایسی بستی چراغوں سے خالی رہی

دشمنوں کی طرح اس سے لڑتے رہے

اپنی چاہت بھی کتنی نرالی رہی

جب کبھی بھی تمہارا خیال آ گیا

پھر کئی روز تک بے خیالی رہی

لب ترستے رہے اک ہنسی کے لئے

میری کشتی مسافر سے خالی رہی

چاند تارے سبھی ہم سفر تھے مگر

زندگی رات تھی رات کالی رہی

میرے سینے پہ خوشبو نے سر رکھ دیا

میری بانہوں میں پھولوں کی ڈالی رہی

Pakistanify News Subscription

X