سر پہ سایہ سا دست دعا یاد ہے
اپنے آنگن میں اک پیڑ تھا یاد ہے
جس میں اپنی پرندوں سے تشبیہ تھی
تم کو اسکول کی وہ دعا یاد ہے
ایسا لگتا ہے ہر امتحاں کے لیے
زندگی کو ہمارا پتہ یاد ہے
میکدے میں اذاں سن کے رویا بہت
اس شرابی کو دل سے خدا یاد ہے
میں پرانی حویلی کا پردہ مجھے
کچھ کہا یاد ہے کچھ سنا یاد ہے