چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو
مومی شمعوں کی رانیں جب بلیڈ سے کھل جائیں چاقوؤں کے سر رکھ دو
میں بھی اک شجر ہی ہوں جس پہ آج تک شاید پھول پھل نہیں آئے
تم مری ہتھیلی پر ایک رات چپکے سے برف کے ثمر رکھ دو
دھوپ کا ہرا بجرا آگ کے سمندر میں چل پڑا ہمیں لینے
نرم و گرم ہونٹوں سے بند ہوتی پلکوں پر تتلیوں کے پر رکھ دو
چاہے کوئی موسم ہو دن گئی بہاروں کے پھر سے لوٹ آئیں گے
ایک پھول کی پتی اپنے ہونٹ پر رکھ کر میرے ہونٹ پر رکھ دو
میرا تن درختوں میں اس لیے جھلستا ہے سخت دھوپ سہتا ہے
کیا عجب تم آ نکلو اور میرے کاندھوں پر تھک کے اپنا سر رکھ دو
روز تار کٹنے سے رات کے سمندر میں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لیے ضروری ہے اک دیا جلا کر تم دل کے طاق پر رکھ دو