سویرے ستاروں کی شبنم کہاں
ذرا دیر میں تم کہاں ہم کہاں
اداسی کے ساون برس دو برس
جوانی گئی پھر یہ موسم کہاں
مسافر کو آنگن کے پھولوں سے کیا
ہوا کی ہتھیلی پہ شبنم کہاں
ہمارا بدن دھوپ کا باغ ہے
یہاں چاندنی اور شبنم کہاں
شکستوں کے ڈیرے منڈیروں پہ ہیں
ہماری فصیلوں پہ پرچم کہاں