سرمہ مسی کنگھی چوٹی بھولی ہے
بشیر بدر

سرمہ مسی کنگھی چوٹی بھولی ہے

سوکھے پتوں پر اک مینا بیٹھی ہے

کہرے کے لرزیدہ ہاتھوں میں اکثر

تلسی اور ادرک کی چائے چھلکتی ہے

ساون نے دھرتی پر پھیلا دیں آنکھیں

لیکن میرا چہرہ اب بھی خالی ہے

پتھر کے کولھوں پر ہاتھ نہ پھیر کمہار

سوکھی مٹی اور بکھرنے لگتی ہے

وہ جو رنگ چمکتا ہے اس ٹہنی پر

ہاتھ آئے تو پھول نہیں تو تتلی ہے

شاور کے نیچے گھلتی جاتی ہے شام

میری آنکھوں پر اک ٹاول لپٹی ہے

تیر رہی ہے آگ کی مچھلی سینے میں

تم سمجھے تھے شاید برف کی برفی ہے

اپنے ہی مرچے پودینے سوکھ گئے

ورنہ دنیا ماش کی دال تو اب بھی ہے

گرد کے لڈو پیڑے گندے بچے کھائیں

رانی بلی دودھ جلیبی کھاتی ہے

اپنا ٹیپ بجا کر کوا سنتا ہے

سب کو اپنی بولی اچھی لگتی ہے

عیب پرانے گھر کا یہ ہی ہے بابا

کوئی آئے نہ آئے گھنٹی بجتی ہے

اس سنسان سی شام میں اونچے ٹیلے پر

زلفیں کھولے وہ لڑکی کیوں بیٹھی ہے

تین سمندر دو صحرا اس کے آگے

ناگن جیسی ایک لکیر چمکتی ہے

Pakistanify News Subscription

X