وہ درودوں کے سلاموں کے نگر یاد آئے
بشیر بدر

وہ درودوں کے سلاموں کے نگر یاد آئے

نعتیں پڑھتے ہوئے قصبات کے گھر یاد آئے

گھر کی مسجد میں وہ نورانی اذاں سے چہرے

ان مشینوں میں دعاؤں کے شجر یاد آئے

شام کے بعد کچہری کا تھکا سناٹا

بے گناہی کو عدالت کے ہنر یاد آئے

میرے سینے میں کوئی سانس چبھا کرتی ہے

جیسے مزدور کو پردیس میں گھر یاد آئے

کتنے خط آئے گئے شاخ پہ پھولوں کی طرح

آج دریا میں چراغوں کے سفر یاد آئے

Pakistanify News Subscription

X