اک شہر تھا خراب جہاں کوئی بھی نہ تھا
ہم لوٹ آئے ہم سا وہاں کوئی بھی نہ تھا
لو کی طرح چراغ کا قیدی نہیں ہوں میں
اچھا ہوا کہ اپنا مکاں کوئی بھی نہ تھا
دل پر جمی تھیں گرد سفر کی کئی تہیں
کاغذ پہ انگلیوں کا نشاں کوئی بھی نہ تھا
وہ محفلوں کی جان ہے دنیا کے واسطے
مجھ سے وہاں ملا تھا جہاں کوئی بھی نہ تھا
سناٹے آئے درجوں میں جھانکا چلے گئے
گرمی کی چھٹیاں تھیں وہاں کوئی بھی نہ تھا