یوں دل کو گدگدایا ہر غم جگا دیا ہے
اس نے ہنسی ہنسی میں ہم کو رلا دیا ہے
پوچھا بہت جو ہم نے کس اور اب ملو گے
چٹکی میں ریت لے کر اس نے اڑا دیا ہے
کل شب عجب ہوا تھی بجھتے دیے کی لو میں
وہ آنسوؤں کا کاغذ ہم نے جلا دیا ہے
روشن تھے رات ہم سے خیمے مسافروں کے
دن کے سفر میں سب نے ہم کو بھلا دیا ہے
جن کاغذوں پہ دل کی قیمت لکھی ہوئی تھی
ان دیمکوں کو کس نے ان کا پتہ دیا ہے