تمام آگ ہے دل راہ خار و خس کی نہیں
یہی گلی ہے جہاں سلطنت ہوس کی نہیں
وہ سب کے سامنے بانہوں میں آ کے کھو جانا
فرشتوں جیسی یہ معصومیت ہوس کی نہیں
بس ایک شام کی لذت بہت غنیمت جان
عظیم پاک محبت ہر اک کے بس کی نہیں
تھا ایک شخص ہر اک شخص اس پہ عاشق تھا
یہ بات کل کی ہے دوچار دس برس کی نہیں
نصاب دل کا کہاں رکھ دیا کلاسوں میں
غزل کی آگ ہے یہ کاغذوں کے بس کی نہیں