پتوں کا دکھ کھوج رہے ہو اڑنے والے پنچھی میں
بشیر بدر

پتوں کا دکھ کھوج رہے ہو اڑنے والے پنچھی میں

آنسو تو پل بھر کا مسافر پلکوں کی اس کشتی میں

ہر چہرے میں تیرا چہرہ ڈھونڈ کے تجھ کو کھو بیٹھے

گھر کا رستہ بھول گئے ہم گھر آنے کی جلدی میں

اک اک گھر کے نام اور نمبر پوچھ کے دن بھی ڈوب چلا تھا

بیلوں کے سائے کے پیچھے شام کھڑی تھی کھڑکی میں

وہ تتلی تھی دیے کی لو کو پھول سمجھ کر بیٹھ گئی

جب چاندی سے بال نظر آئے بچی کو کنگھی میں

وہ ان پڑھ تھا پھر بھی اس نے پڑھے لکھے لوگوں سے کہا

اک تصویر کئی خط بھی ہیں صاحب آپ کی ردی میں

بے موسم آنکھوں کی بدلی ہم کو نہیں اچھی لگتی ٔہے

دھواں دھواں گھر ہو جاتا ہے ساون کی گیلی لکڑی میں

آ میرے سینے پر سر رکھ اپنے کان سے سن پگلی

میرے بھگون بول رہے ہیں من مندر کی گھنٹی میں

Pakistanify News Subscription

X