کہرے جیسی چادر اوڑھے بوڑھا اپنی کھڑکی سے
بشیر بدر

کہرے جیسی چادر اوڑھے بوڑھا اپنی کھڑکی سے

جھیلوں کی پلکیں سہلاتا ہے نورانی داڑھی سے

لانبی لانبی فصلوں کے تیور سے دھرتی ہل جاتی ہے

جیسے ماں ڈر جائے اپنی نازک خود سر بچی سے

اسٹیشن کے پیڑوں کو پہلے چونے سے رنگتے ہیں

پھر ان پر کیا لکھا جاتا ہے رنگوں کی مٹی سے

روٹی پنجرا پانی گھیرا ماٹی لوہے کی جالی

اب کیا واپس جا پائیں گے یہ پنچھی اس بستی سے

پانی سب کا رستہ روکے اپنے ساجن بھی اس پار

سارا ساگر طے کرنا ہے کاغذ کی اس کشتی سے

دل اک مندر میں میرا ہوں تو میرا گردھر ناگر

تو ہی میرا جیون ہے کیا روٹھے گی لو باتی سے

Pakistanify News Subscription

X