سیاہیوں کے بنے حرف حرف دھوتے ہیں
بشیر بدر

سیاہیوں کے بنے حرف حرف دھوتے ہیں

یہ لوگ رات میں کاغذ کہاں بھگوتے ہیں

کسی کی راہ میں دہلیز پر دیے نہ رکھو

کواڑ سوکھی ہوئی لکڑیوں کے ہوتے ہیں

چراغ پانی میں موجوں سے پوچھتے ہوں گے

وہ کون لوگ ہیں جو کشتیاں ڈبوتے ہیں

انہیں میں کھیلنے آتی ہیں بے ریا روحیں

وہ گھر جو لال ہری دفتیوں کے ہوتے ہیں

قدیم قصبوں میں کیسا سکون ہوتا ہے

تھکے تھکائے ہمارے بزرگ سوتے ہیں

چمکتی ہے کہیں صدیوں میں آنسوؤں سے زمیں

غزل کے شعر کہاں روز روز ہوتے ہیں

Pakistanify News Subscription

X