ناریل کے درختوں کی پاگل ہوا کھل گئے بادباں لوٹ جا لوٹ جا
سانولی سرزمیں پر میں اگلے برس پھول کھلنے سے پہلے ہی آ جاؤں گا
گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک
خون میں آگ بن کر اتر جائے گی صبح تک یہ مکاں خاک ہو جائے گا
لان میں ایک بھی بیل ایسی نہیں جو دیہاتی پرندے کے پر باندھ لے
جنگلی آم کی جان لیوا مہک جب بلائے گی واپس چلا جائے گا
میرے بچپن کے مندر کی وہ مورتی دھوپ کے آسماں پہ کھڑی تھی مگر
ایک دن جب مرا قد مکمل ہوا اس کا سارا بدن برف میں دھنس گیا
انگنت کالے کالے پرندوں کے پر ٹوٹ کر زرد پانی کو ڈھکنے لگے
فاختہ دھوپ کے پل پہ بیٹھی رہی رات کا ہات چپ چاپ بڑھتا گیا