کیسا دل اور اس کے کیا غم جی
یوں ہی باتیں بناتے ہیں ہم جی
کیا بھلا آستین اور دامن
کب سے پلکیں بھی اب نہیں نم جی
اس سے اب کوئی بات کیا کرنا
خود سے بھی بات کیجے کم کم جی
دل جو دل کیا تھا ایک محفل تھا
اب ہے درہم جی اور برہم جی
بات بے طور ہو گئی شاید
زخم بھی اب نہیں ہے مرہم جی
ہار دنیا سے مان لے شاید
دل ہمارے میں اب نہیں دم جی
ہے یہ حسرت کے ذبح ہو جاؤں
ہے شکن اس شکم کہ ظالم جی
کیسے آخر نہ رنگ کھیلیں ہم
دل لہو ہو رہا ہے جانم جی
ہے خرابہ حسینیہ اپنا
روز مجلس ہے اور ماتم جی
وقت دم بھر کا کھیل ہے اس میں
بیش از بیش ہے کم از کم جی
ہے ازل سے ابد تلک کا حساب
اور بس ایک پل ہے پیہم جی
بے شکن ہو گئی ہیں وہ زلفیں
اس گلی میں نہیں رہے خم جی
دشت دل کا غزال ہی نہ رہا
اب بھلا کس سے کیجئے رم جی
© 2024 Pakistanify Media - Navigating The World of Information