ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں
ثروت حسین

ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں

شروع فصل گل ہے ان لبوں کو چوم کر دیکھوں

کہاں کس آئنے میں کون سا چہرہ دمکتا ہے

ذرا حیرت سرائے آب و گل میں گھوم کر دیکھوں

مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر

کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں

گزر گاہیں جہاں پر ختم ہوتی ہیں وہاں کیا ہے

کوئی رہرو پلٹ کر آئے تو معلوم کر دیکھوں

بہت دن دشت و در میں خاک اڑاتے ہوئے ثروتؔ

اب اپنے صحن میں اپنی فضا میں جھوم کر دیکھوں

Pakistanify News Subscription

X