اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں
ثروت حسین

اسی کنارۂ حیرت سرا کو جاتا ہوں

میں اک سوار ہوں کوہ ندا کو جاتا ہوں

رمیدگی کا بیاباں ہے اور بے خور و خواب

غبار کرتا سکوت و صدا کو جاتا ہوں

قریب ہی کسی خیمے سے آگ پوچھتی ہے

کہ اس شکوہ سے کس قرطبہ کو جاتا ہوں

حذر کہ دجلۂ دشوار پر قدم رکھتا

شکارگاہ فرات و فنا کو جاتا ہوں

کہاں گئے وہ خدایان درہم و دینار

کہ اک دفینۂ دشت بلا کو جاتا ہوں

سفارت حد حیرانگی پہ ہوں مامور

نگار خانۂ حسن و ادا کو جاتا ہوں

وہ دن بھی آئے کہ انکار کر سکوں ثروتؔ

ابھی تو معبد حمد و ثنا کو جاتا ہوں

Pakistanify News Subscription

X