کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے
حبیب جالب

کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے

تجھے بے وفا کہوں میں وہ مقام آ نہ جائے

ذرا زلف کو سنبھالو مرا دل دھڑک رہا ہے

کوئی اور طائر دل تہہ دام آ نہ جائے

جسے سن کے ٹوٹ جائے مرا آرزو بھرا دل

تری انجمن سے مجھ کو وہ پیام آ نہ جائے

وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹیں

انہیں رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے

اسی فکر میں ہیں غلطاں یہ نظام زر کے بندے

جو تمام زندگی ہے وہ نظام آ نہ جائے

یہ مہ و نجوم ہنس لیں مرے آنسوؤں پہ جالبؔ

مرا ماہتاب جب تک لب بام آ نہ جائے

Pakistanify News Subscription

X