نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے
جمال احسانی

نہ سننے میں نہ کہیں دیکھنے میں آیا ہے

جو ہجر و وصل مرے تجربے میں آیا ہے

نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ

عجیب لطف تجھے بھولنے میں آیا ہے

نہ ہاتھ میرے نہ آنکھیں مری نہ چہرہ مرا

یہ کس کا عکس مرے آئنے میں آیا ہے

جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا

یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے

ہے واقعہ ہدف سیل آب تھا کوئی اور

مرا مکان تو بس راستے میں آیا ہے

وہ راز وصل تھا جو نیند میں کھلا مجھ پر

یہ خواب ہجر ہے جو جاگتے میں آیا ہے

جمالؔ دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو

کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا ہے

Pakistanify News Subscription

X