یہ نہ ہو وہ بھولنے والا بھلا دینا پڑے
شہزاد احمد

یہ نہ ہو وہ بھولنے والا بھلا دینا پڑے

اور پھر یہ راز اس کو بھی بتا دینا پڑے

اے دل ہنگامہ خو تکرار اتنی بھی نہ کر

تنگ آ کر تجھ کو محفل سے اٹھا دینا پڑے

ٹھان رکھی ہے کہ دل کی بات کہنی ہے ضرور

اس کی خاطر خواہ محشر ہی اٹھا دینا پڑے

آنکھ والوں کے کرم سے آج وہ رات آ گئی

جب کسی اندھے کے ہاتھوں میں دیا دینا پڑے

دیکھنا ہے آگ میں کیسا نظر آتا ہے شہر

خواہ پورا شہر ہی ہم کو جلا دینا پڑے

Pakistanify News Subscription

X